Tuesday, May 8, 2012

مسلمانوں کو چاہیے توحید، رسالت اور ولایت کا دامن تھام لیں اسی میں ہم سب کی امان ہے


تقریب خبررساں ادارہ (تنا) کے مطابق 7مئی کو عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے رکن اور برصغیر کیلئے خبررساں ادارے کے بیورو چیف حاج عبدالحسین موسوی نے ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی بشیر الدین احمد کے ساتھ انکی رہائشگاہ پر ملاقات کی اور تقریب مذاہب اسلامی کے حوالے تبادلہ خیال کیا جسکے بعد تقریب نیوز اردو کے ایڈیٹر جناب سید علی صفوی نے مفتی اعظم صاحب سے کچھ سوالات پوچھے جنہیں قارئین کے نظر کیا جارہا ہے۔
آپ کی نظر میں تقریب مذاہب کویقینی بنانے کے لئے کیا طریقہ کار استعمال میں آنا چاہئے؟

ہم سب کو ایک دوسرے کے مجالس و محافل میں شامل اور ایک دوسرے کے نظریات کو سن لینا اور ایک دوسرے کے خیالات سے متعارف ہونا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ ایک دوسرے کے اختلافات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کا حل تلاش کریں۔ اگر کسی جگہ کوئی اختلاف ہم میں پایا جاتا ہے تو اس کو صحیح ڈھنگ سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

تقریب بین المذاہب اسلامی کے حوالے سے علماء کا کیا کردار بنتا ہے ؟
میری نظر میں علماء کا سب سے بڑا اور اہم رول تقریب کے حوالے سے بنتا ہے۔ علماء ہی کسی قوم کے بنانے اور بگاڑنے کے ذمہ دار ہیں ۔ اگر علماء میں زیادہ سے زیادہ سنجیدگی پائی جائے ، زیادہ سے زیادہ فراغ دلی پائی جائے ، تخیلات اور تصورات میں ایک ہم آہنگی پائی جائے تو وہ باہمی طور پر اختلافات کا تدارک کرسکتے ہیں۔

مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان دوستی اور محبت قائم کرنے کا کیا طریقہ کار ہوسکتا ہے ؟
میری نظر میں مذہب ایک ہی ہے ‘‘ان الدّین عنداللہ الاسلام’’ ۔ جعفری بھی اسلام کو مانتے ہیں ، سنی بھی اسلام کو مانتے ہیں، اہل حدیث بھی اسلام کو ہی مانتے ہیں ۔ غرض سب اسلام کو ہی مانتے ہیں البتہ اپنانے کا طریقہ انہوں نے الگ الگ اختیار کیا ہوا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہ جعفریہ اور حنفیہ میں کافی اشتراک ہے۔ حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے علم حاصل کیا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی عجیب یا نئی بات نہیں کہ شیعہ اور حنفی مسلک میں کافی کچھ مشترک ہے۔

آپ خود مفتی اعظم ہیں۔ اسلام کے نام پر جو غیر اسلامی فتوے صادر کرتے ہیں ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے؟
فتویٰ اگر اسلامی اصول پر مبی صادر کیا جائے تو فتوی ہو گا ورنہ نہیں۔ کیونکہ فتوی پوری تحقیق کے بعد صادر ہوتا ہے البتہ اگر کسی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہو، یا خلفای راشدین یا ائمہ کی شان میں گستاخی کی ہو تو اس صورت میں کسی تامل کے بغیر فتویٰ صادر کرنا ضروری ہے۔ اور کسی مفتی کو دوسرے عقیدوں کی دل آزاری کی اجازت نہیں ہے اگر کسی نے غیر مسلمانوں کی عبادگاہوں کو منہدم کرنے کا فتوی دیا ہو وہ اسکی ذاتی رائے ہو سکتی ہے فتوی نہیں ،کیونکہ ایسی رائے میں اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

کانفرنسوں اور اجلاسوں کے انعقاد سے تقریب بین المذاہب اسلامی کا کس حد تک رول رہ سکتا ہے ؟ 
اسلامی مسلکوں کو قریب لانے کیلئے کانفرنسوں اور اجلاسوں کا بہت اہم رول ہے۔ اگر ہم ایک ساتھ ایک ہی اسٹیج بنائیں تو اس سے لوگوں کے دلوں میں زبردست اثر پیدا ہوتا ہے۔

تقریب کی ثقافت کو وجود میں لانے کے لئے کون سا طریقہ کار مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟
تبلیغ سے، اشاعت سے، آپسی ملاقاتوں سے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر ، ایک دوسرے کے خیالات جانکر اور بھائی چارے کی فضا قائم کرکے ہم ایک دوسرے کی غلط فہمیوں کو بھی دور کرسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب بھی آسکتے ہیں اور اسی کو تقریب کی ثقافت بھی کہہ سکتے ہیں۔چونکہ وقت کی یہ بہت اہم ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا کا جو رجحان ہے وہ تخریب کی طرف جا رہا ہے اور تعمیر کا تقاضا یہی ہے کہ تخریبی عناصر کو ابھرنے نہ دیا جائے بلکہ تقریب کی ضمانت فراہم کی جائے۔

یہ آئے دن میڈیا میں جو بیانات آرہے ہیں کہ کشمیر میں ایک حکمت عملی کے تحت فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ کس حد تک صحیح ہے ؟
یہ بالکل غلط ہے اور محض دماغی اختراع ہے اور کچھ نہیں۔ کشمیر میں ایک ایسی جماعت ہے جو عشق نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ ولم) کی قائل ہے، ولایت کی قائل ہے اور اولیاء کرام کی محبت کی قائل ہے۔ ان کا احترام کرتی ہے اور ان کے افکار و خیالات کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔ اس کو مسلکی اختلافات سے وہ لوگ تعبیر کرتے ہیں جن کی دکانیں بند ہونے کا خطرہ ہے۔

اگر اختلاف ہے تو مجھے بتائیے کہ کس مسجد میں اہل سنت اور شیعہ میں لڑائی ہوئی اور وہ پرچہ کاٹنے پولیس کے پاس گئے۔ یہ محض افواہ ہے اور کچھ نہیں ۔حدیث میں ہے کہ فتنہ سویا ہوا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو جو اس کو بیدار کرے۔

کشمیر میں الحمد للہ نہ صرف مسلمانوں کے درمیان اتحاد برقرار ہے بلکہ ہندو، مسلم ، سکھ اتحاد اصل معنوں میں قائم ہے۔ یہاں اگر کسی سے ہمار مقابلہ ہے تو وہ عیسائیت اور مرزائیت سے ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اسلام میں تین چیزیں بنیادی ہیں: توحید، رسالت اور ولایت حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام ۔ توحید تو قائم ہے، رسالت کا دروازہ بند اور ولایت کا دروازہ تا قیام قیامت کھلا رہے گا۔ اور اگر ولایت کو آپ مسلکی اختلاف سے تعبیر کریں گے تو میں کہتا ہوں کہ میں اس مسلکی اختلاف کا قائل ہوں۔

جس ولی کو آپ دیکھیں گے اس کا سلسلہ نصب حضرت امام حسن یا حضرت امام حسین شہید کربلا علیہ السلام سے ملتا ہے۔

مجھے شاہ ولایت حضرت علی مرتضٰی کی زیارت کا شرف حاصل ہے جب میں ان کے روضہ مبارک میں داخل ہوا تو مجھ پر عجیب و غریب کیفیت طاری ہوگئی جس کو میں آج تک محسوس کر رہا ہوں۔ میں کربلا بھی گیا ہوں اور تمام مقدس مقامات کی میں نے زیارت کی ہے۔

گذشتہ چند سالوں پر ہم اگر نظر دوڑائیں تو آپ کو نہیں لگتا کہ ایک مخصوص فکر رکھنے والے علماء کرام کو نشانہ بنایا جارہا ہے ؟
بالکل۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے ایک ایسا عنصر ہے جو ان کے خیالات کے ساتھ متصادم ہیں۔ ان کو پسند نہیں کہ ہم اولیاء اللہ کے مشن کو آگے بڑھائیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ خطرناک حربہ استعمال کرنے کے لئے آگے ہوتے ہیں ، قتل و غارت کا سہارا لیتے ہیں، کسی کو مارنے کی سازش رچتے ہیں جو کہ خود ان کی ناکامی کی علامت ہے۔

 تو آپ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس طرح کی سازشیں یہاں ہورہی ہیں؟
بالکل ہورہی ہیں۔ اس سے نمٹنے کے لئے ہماری یہی کوشش ہے کہ ولایت کے پیغام کو عام کریں ۔ اس کو روکنا نہیں ہے بلکہ اس کو آگے بڑھانا ہے۔ ہم اس مشن کو چلا رہے ہیں جس کو حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے چلایا ہے۔ نبوت کے رموز و اثرات کو پہنچانے والے اولیاء کرام ہیں۔ چاہئے وہ اولیاء کرام گزرے ہیں یا موجود ہیں یا پید اہونے والے ہیں۔

عالم اسلام کے لئے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
عالم اسلام کے لئے میرا یہی پیغام ہے کہ مسلمان متحد ہوجائیں، اپنے صفحوں میں اتحاد پیدا کریں اور ایک دوسرے کے نظریات کو ڈھونڈنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں ۔ توحید ، رسالت اور ولایت کو سامنے رکھیں اسی میں ہم سب کی امان ہے۔

مکالمے کے آغاز میں مفتی اعظم کشمیر مولانا مفتی بشیر الدین احمد نے تقریب مذاہب اسلامی کے نمایندے جناب حجت الاسلام والمسلمین حاج عبدالحسین سے اتحاد و تقریبی جذبے کے حوالے سے اپنی میٹھی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا:
جب ایران عراق جنگ چل رہی تھی تو دہلی میں اس وقت کے عراقی سفیر نے مجھے دورۂ عراق کی دعوت دی ۔ جب میں عراق گیا تو میں نے اپنی پہلی تقریر حضرت پیر دستگیر کے روضہ مبارک پر کی جہاں تقریباً پانچ لاکھ لوگ موجود تھے۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ایران اور عراق آپس میں دو بھائی ہیں، دو مسلمان مملکتیں ہیں جن کو ایک بہت بڑا دشمن آپس میں لڑوا رہا ہے۔ وہ دشمن اور کوئی نہیں امریکہ، برطانیہ اور سامراجی قوتیں ہیں۔ اگرچہ ان کو اس وقت میری بات گوارا نہیں ہوئی لیکن میں اپنے دل کی بات کہہ دی۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ امریکہ ہی نے ایران اور عراق کو پہلے لڑوایا اور دونوں طرف سے لاکھوں افراد مارے گئے۔ اس کے بعد امریکہ ہی نے کویت پر حملہ کروایا۔

اس وقت مشرق وسطیٰ میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ امریکہ کے اشاروں پر ہورہا ہے۔ امریکہ اسرائیل کی حفاظت کررہا ہے اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

امریکہ کے اشارہ پر ہی لیبیا کو تباہ کیا گیا ۔ شام کے پیچھے پڑے تھے لیکن شام نے تھوڑی بہت قوت کا مظاہرہ کیا اور اب تک ایران کے پیچھے پڑے ہیں لیکن ناکام ہو رہے رہیں یقینا انہیں ایران کے خلاف کامیابی حاصل بھی نہیں ہوگی۔ 

آج کے دور میں اگر دیکھا جائے تو ایران ہی مسلمانوں کی قوت بنکر ابھر رہا ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آمیزی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ ایران نے پوری قوت ، ہمت اور طاقت کے ساتھ سامراجی قوتوں اور امریکہ کا مقابلہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کہ ناکامی یقینی ہے۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ میں جو شاندار رول ادا کیا اس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے۔ آپ دیکھئے کہ کشمیر میں بھی قیادت ابھری اور پھر بک گئی۔ اسی طرح پاکستان میں بھی قیادت ابھری مگر پھر بک گئی۔ آج پاکستان جتنا دنیا میں تباہ ہورہا ہے اتنا کوئی ملک نہیں ہورہا ہے۔ تقریباً ہر ملک کی قیادت پہلے ابھری پھر بک گئی۔ لیکن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت واحد قیادت ہے جو بکی نہیں اور اپنی ملت اور قوم کو آزادی دلائی۔
...........
ملاقات کی پوری کاروائی دو عربی چینلوں "العالم ٹی وی اور الوحدہ ٹی وی" نے ضبط کیا۔

تصویری رپورٹ:
http://www.taghribnews.com/vgld۵k۰n.yt۰snyl۲۴f۳۶y.h.html