تحریک صوت الاولیاء جموں و کشمیر کے بانی مولانا
عبدالرشید داؤدی 1979ء میں ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے ضلع کولگام میں
پیدا ہوئے۔ اسلامی تعلیم کا آغاز انہوں نے ادارہ اسلامی تحقیقات اسلام
آباد (کشمیر) سے کیا جہاں سے انہوں نے فاضلیت کی ڈگری حاصل کی اور پھر
کشمیر یونیورسٹی سے بھی فاضلیت کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد مزید حصول علم
کے لئے یمن تشریف لے گئے۔
2005ء میں مولانا داؤدی نے تحریک صوت الاولیاء جموں و کشمیر کی بنیاد ڈالی
اور آج اس ادارہ کا شمار کشمیر کے بڑے بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ اس ادارہ کا
نصب العین دین اسلام کے متعلق اولیاء اللہ کے عطا کردہ عقائد و اعمال کی
اشاعت, تبلیغ اور ترجمانی ہے۔
تحریک صوت الاولیاء نے عوام الناس کو دینی تعلیم سے روشناس کرنے کے لئے
کشمیر میں مختلف جگہوں پر درسگاہوں اور دارالعلوم کا قیام عمل میں لایا ہے۔
سینکڑوں کی تعدا دمیں علماء ، مبلغین اور مدّرسین اس تحریک سے وابستہ ہیں
اور خدمت دین و خدمت خلق انجام دے رہے ہیں۔
اس تحریک کے زیر نگران ایک ٹرسٹ بھی چل رہا ہے جو غریبوں اور محتاجوں کی
مدد کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ ادارہ ایک سہ ماہی میگزین بھی شائع کرتا ہے۔
مرکزی صوت الاولیاء میں تقریباً تین سو طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ان کا سارا
خرچہ ادارہ برداشت کرتا ہے۔ ضروریات دنیوی کو مد نظر رکھکر ان طلباء کو
انگریزی اور کمپیوٹر کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔
برصغیر کیلئے تقریب خبررساں ادارے (تنا) کے بیورو
چیف اور عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے رکن جناب حجت الاسلام
والمسلمین عبدالحسین کشمیری نے جمعرات 29 مارچ کو تقریب نیوز کے کو ایڈیٹر
جناب سید علی صفوی اور تقریب
نیوز کے آنلاین رپورٹر آغا سید احمد موسوی کے ہمراہ ہندوستان زیر انتظام
کشمیر کے ضلع اسلام آباد میں واقع تحریک صوت الاولیاء جموں و کشمیر کے
مرکز پر جاکر بانی مرکز مولانا عبدالرشید داؤودی صاحب سے ملاقات کی اور
تقریب مذاہب اسلامی کے حوالے سے موالانا داؤدی صاحب سے تبادلہ خیال کیا جس
کے بعد کو ایڈیٹر نے ان سے مکالمہ لیا جسکی تفصیل شرح ذیل ہے:
آپ کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے حامی رہے ہیں۔ اس حوالہ سے آپکی کوششوں کے بارے میں ہمیں بتائیے ؟
اتحاد بین المسلمین پر ہر مسلمان کو پہل کرنا لازمی ہے۔ لیکن جو ذمہ دار لوگ ہیں اور جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے حوالہ سے اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کو چاہئے کہ اپنے افکار اور نظریات کو صحیح ڈھنگ سے عوام کے سامنے پیشکریں اور ان باتوں سے پرہیز کریں جو مسلکی منافرت کا سبب بن سکتی ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ عقائد، افکار اور نظریات کو صحیح ڈھنگ سے پیش کیا جائے کیونکہ زیادہ تر اختلافات نظریاتی اور افکاری ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مثبت پہلوؤں کو منفی پہلوؤں پر ترجیح دی جائے کیونکہ مثبت پہلو اختیار کر کے اتحاد بین المسلمین ممکن ہے۔ باقی جو علمی معاملات ہیں ان کو علمی حلقہ تک ہی محدود رکھا جانا چاہئے۔
اختلاف اگر علمی ہو تو باعث رحمت ہے کیونکہ اس سے دین کا فروغ ہوسکتا ہے نقصان نہیں۔ علماء کرام کو چاہئے کہ ایسی باتوں کو عوام تک نہ پہنچائے جو انتشار کا موجب بنیں۔
چند سال قبل آپ پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟
میں درواقع اس سے بے خبر ہوں۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے فرمایا کہ زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص کو قتل کیا جائے گا لیکن نہ قاتل کو پتہ ہوگا کہ وہ کس بنا پر قتل کر رہا ہے اور نہ مقتول کو پتہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل ہوا۔ مجھےوہ حالات آج بخوبی نظر آتے ہے۔
میں دین کا ایک ادنیٰ خدمت گزار ہوں میری کسی سیاسی تنظیم سے کوئی وابستگی نہیں ہے۔ میں نے آج تک جو بھی کام کیا ہے فقط دین کی خاطر کیا ہے۔ میں نے خدا نخواستہ ایسا کوئی کام انجام نہیں دیا تھا جس کی وجہ سے میں اس حملہ کا مستحق بن جاتا۔
کشمیر میں اکثریت حنفی مسلک سے وابستہ لوگوں کی رہی ہے۔ چند لوگ کچھ وجوہات کی بنا پر ان کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں ان کے علماؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ایک خاص مکتب فکر کو ٹارگیٹ بنا کر شاید وہ کچھ اور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ ان کی نیت خراب ہے اسلئے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے سعودی عرب سے کچھ عجیب و غریب فتوے صادر ہوئے جو اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں یہ فتوے ان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ۔ آپ کا اس بارے میں کیا ردّ عمل ہے؟
مسلمانوں کو ویسے بھی دہشت گرد نام دیکر بدنام کیا جاتا ہے اور ایسے جاہلانہ اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات اٹھا کر مسلمانوں کو مزید تشدد کا شکار بنانا مناسب نہیں ہے۔ علماء کو قرآن شریف کو سامنے رکھکر فتوے صادر کرنے چاہئے۔ کسی کو خوش کرنے کے لئے ایسے فتوے صادر کرنا مناسب نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے کہا ہے کہ زمانہ آخر میں مبلغین اور مفتیانِ عظام لوگوں کی مرضی کے مطابق فتوے صادر کریںگے۔
دین حکمت سے بھرا ہوا ہے ۔ حکمت سکھا کر اور حکمت عملا کر ہی اسلام پھیلا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ، اہلبیت اطہار (علیہم السلام) اور صحابہ کرامؓ نے حکمت کو ترجیح دیکر دین کو پھیلایا ہے۔ ہندوستان میں جو بزرگانِ دین آئے انہوں نے بھی حکمت کو سامنے رکھکر دین کو پھیلایا۔
جہاں مغربیت، نصرانیت اور یہودیت بہت زوروں پر ہے اس دور میں ایسے فتوے صادر کرنا جن کی وجہ سے مسلمان ظلم و تشدد کا شکار ہوجائیں وہ قطعی مناسب نہیں ہے۔ مثبت حکمت عملی اپنانا بہت ضروری ہے تاکہ دین کی بھی ترویج ہوجائے اور مسلمان بھیمحفوظ رہیں۔
کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے بہت سی کوششیں ہوئی بھی ہیں اور ہو بھی رہی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ ظاہر نہیں ہے۔ کوئی ٹھوس سعی و کوشش مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی نہیں ہورہی ہے ؟
میں نے قبل ازیں آپ سے عرض کیا کہ بنیادی اختلاف افکار اور نظریات میں ہے۔ جس نے اپنا کوئی آئیڈیل بنایا وہ اس پر ڈٹا ہوا ہے۔ اپنی بات چھوڑنے کے لئے کوئی تیار بھی نہیں ہے۔ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشترکات کو فوقیت دی جائے تو اتحاد ممکن ہے۔
جہاں تک اہلسنت والجماعت کی بات ہے تو ان کو منظّم کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ ہم اجتماعی طور دین کی خدمت کر سکیں۔
مدرسوں کو حکومت ہند سے مالی امداد ملنے کی جو خبر میڈیا میں آئی تھی اس بارے میں ہمیں کچھ بتائیے ؟
ہم اپنی طرف سے کہتے ہیں کہ تحریک صوت الاولیاء نے آج تک حکومت سے نہ مالی مدد لی ہے اور نہ آئندہ لینے کا ارادہ ہے۔ ہم نے بارہا حکومت سے گذارش کی کہ جن مدارس کو مالی امداد ملتی ہے ان کی فہرست اخبارات میں شائع کریں تاکہ ان باتوں سے جو عوام میں انتشار پھیلایا جاتا ہے وہ دور ہوجاتا۔
حکومت کی بھی کوئی تعداد مقرر نہیں ۔ پہلے انہوں نے کہا کہ 372 مدرسوں کو وہ مالی امداد دیتے ہیں اور آج وہ کہتے ہیں کہ صرف 72 مدرسوں کو امداد ملتی ہے۔
ان باتوں سے ہمارے لئے مشکلات پیدا ہوتے ہیں عوام کو لگتا ہے کہ ہم کو حکومت کی طرف سے امداد ملتی ہے اس لئے ہمیں انکے چندے کی ضرورت نہیں ہے۔
ادارہ صوت الاولیاء کو حکومت کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ادارہ عوام کا ہے وہ خود چندہ دیکر اس ادارہ کو چلاتے رہیں گے۔
آپ کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے حامی رہے ہیں۔ اس حوالہ سے آپکی کوششوں کے بارے میں ہمیں بتائیے ؟
اتحاد بین المسلمین پر ہر مسلمان کو پہل کرنا لازمی ہے۔ لیکن جو ذمہ دار لوگ ہیں اور جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے حوالہ سے اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کو چاہئے کہ اپنے افکار اور نظریات کو صحیح ڈھنگ سے عوام کے سامنے پیشکریں اور ان باتوں سے پرہیز کریں جو مسلکی منافرت کا سبب بن سکتی ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ عقائد، افکار اور نظریات کو صحیح ڈھنگ سے پیش کیا جائے کیونکہ زیادہ تر اختلافات نظریاتی اور افکاری ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مثبت پہلوؤں کو منفی پہلوؤں پر ترجیح دی جائے کیونکہ مثبت پہلو اختیار کر کے اتحاد بین المسلمین ممکن ہے۔ باقی جو علمی معاملات ہیں ان کو علمی حلقہ تک ہی محدود رکھا جانا چاہئے۔
اختلاف اگر علمی ہو تو باعث رحمت ہے کیونکہ اس سے دین کا فروغ ہوسکتا ہے نقصان نہیں۔ علماء کرام کو چاہئے کہ ایسی باتوں کو عوام تک نہ پہنچائے جو انتشار کا موجب بنیں۔
چند سال قبل آپ پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟
میں درواقع اس سے بے خبر ہوں۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے فرمایا کہ زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص کو قتل کیا جائے گا لیکن نہ قاتل کو پتہ ہوگا کہ وہ کس بنا پر قتل کر رہا ہے اور نہ مقتول کو پتہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل ہوا۔ مجھےوہ حالات آج بخوبی نظر آتے ہے۔
میں دین کا ایک ادنیٰ خدمت گزار ہوں میری کسی سیاسی تنظیم سے کوئی وابستگی نہیں ہے۔ میں نے آج تک جو بھی کام کیا ہے فقط دین کی خاطر کیا ہے۔ میں نے خدا نخواستہ ایسا کوئی کام انجام نہیں دیا تھا جس کی وجہ سے میں اس حملہ کا مستحق بن جاتا۔
کشمیر میں اکثریت حنفی مسلک سے وابستہ لوگوں کی رہی ہے۔ چند لوگ کچھ وجوہات کی بنا پر ان کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں ان کے علماؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ایک خاص مکتب فکر کو ٹارگیٹ بنا کر شاید وہ کچھ اور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ ان کی نیت خراب ہے اسلئے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے سعودی عرب سے کچھ عجیب و غریب فتوے صادر ہوئے جو اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں یہ فتوے ان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ۔ آپ کا اس بارے میں کیا ردّ عمل ہے؟
مسلمانوں کو ویسے بھی دہشت گرد نام دیکر بدنام کیا جاتا ہے اور ایسے جاہلانہ اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات اٹھا کر مسلمانوں کو مزید تشدد کا شکار بنانا مناسب نہیں ہے۔ علماء کو قرآن شریف کو سامنے رکھکر فتوے صادر کرنے چاہئے۔ کسی کو خوش کرنے کے لئے ایسے فتوے صادر کرنا مناسب نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے کہا ہے کہ زمانہ آخر میں مبلغین اور مفتیانِ عظام لوگوں کی مرضی کے مطابق فتوے صادر کریںگے۔
دین حکمت سے بھرا ہوا ہے ۔ حکمت سکھا کر اور حکمت عملا کر ہی اسلام پھیلا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ، اہلبیت اطہار (علیہم السلام) اور صحابہ کرامؓ نے حکمت کو ترجیح دیکر دین کو پھیلایا ہے۔ ہندوستان میں جو بزرگانِ دین آئے انہوں نے بھی حکمت کو سامنے رکھکر دین کو پھیلایا۔
جہاں مغربیت، نصرانیت اور یہودیت بہت زوروں پر ہے اس دور میں ایسے فتوے صادر کرنا جن کی وجہ سے مسلمان ظلم و تشدد کا شکار ہوجائیں وہ قطعی مناسب نہیں ہے۔ مثبت حکمت عملی اپنانا بہت ضروری ہے تاکہ دین کی بھی ترویج ہوجائے اور مسلمان بھیمحفوظ رہیں۔
کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے بہت سی کوششیں ہوئی بھی ہیں اور ہو بھی رہی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ ظاہر نہیں ہے۔ کوئی ٹھوس سعی و کوشش مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی نہیں ہورہی ہے ؟
میں نے قبل ازیں آپ سے عرض کیا کہ بنیادی اختلاف افکار اور نظریات میں ہے۔ جس نے اپنا کوئی آئیڈیل بنایا وہ اس پر ڈٹا ہوا ہے۔ اپنی بات چھوڑنے کے لئے کوئی تیار بھی نہیں ہے۔ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشترکات کو فوقیت دی جائے تو اتحاد ممکن ہے۔
جہاں تک اہلسنت والجماعت کی بات ہے تو ان کو منظّم کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ ہم اجتماعی طور دین کی خدمت کر سکیں۔
مدرسوں کو حکومت ہند سے مالی امداد ملنے کی جو خبر میڈیا میں آئی تھی اس بارے میں ہمیں کچھ بتائیے ؟
ہم اپنی طرف سے کہتے ہیں کہ تحریک صوت الاولیاء نے آج تک حکومت سے نہ مالی مدد لی ہے اور نہ آئندہ لینے کا ارادہ ہے۔ ہم نے بارہا حکومت سے گذارش کی کہ جن مدارس کو مالی امداد ملتی ہے ان کی فہرست اخبارات میں شائع کریں تاکہ ان باتوں سے جو عوام میں انتشار پھیلایا جاتا ہے وہ دور ہوجاتا۔
حکومت کی بھی کوئی تعداد مقرر نہیں ۔ پہلے انہوں نے کہا کہ 372 مدرسوں کو وہ مالی امداد دیتے ہیں اور آج وہ کہتے ہیں کہ صرف 72 مدرسوں کو امداد ملتی ہے۔
ان باتوں سے ہمارے لئے مشکلات پیدا ہوتے ہیں عوام کو لگتا ہے کہ ہم کو حکومت کی طرف سے امداد ملتی ہے اس لئے ہمیں انکے چندے کی ضرورت نہیں ہے۔
ادارہ صوت الاولیاء کو حکومت کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ادارہ عوام کا ہے وہ خود چندہ دیکر اس ادارہ کو چلاتے رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment