Monday, April 23, 2012

پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی کے پیچھے پاکستان کو توڑنے کی کوشش


ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے سینئر علیحدگی پسند رہنما اور ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے چیئرمین جناب شبیر احمد شاہ نے پاکستان میں جاری شیعوں کے قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور پاکستانی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ اسلام دشمن اور پاکستان دشمن عناصر سے خبر دار رہیں۔تقریب نیوز(تنا) کشمیر بیورو کے ساتھ ایک خصوصیمکالمے میں شبیر شاہ صاحب نے پاکستان میں شیعہ کشی کی شدید الفاظوں میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان میں شیعوں کا کلیدی رول رہا ہے جو کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان میں شیعہ سنی سب بھائی بھائی ہیں مگر جو اسلام کے اور پاکستان کے دشمن ہیں وہ ان کو ایک ساتھ نہیں دیکھ سکتے۔

جناب شاہ صاحب نے گلگت بلتستان اور ہزارہ میں جاری شیعوں کی نسل کشی کو پاکستان کو توڑنے کی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جاری خون ریزی عقیدہ کی لڑائی نہیں ہے بلکہ اقتدار کی لڑائی ہے جس میں بد قسمتی سے معصوملوگوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دشمنان اسلام خصوصاً امریکہ اور یہودی مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے کافی سازشیں رچ رہی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو متحد و منسجم نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کی پریشانی یہ ہے کہ اگر مسلمان ایک ہوگیا تو وہ کہیں کے نہیں رہ جائیں گے۔’’

کل جماعتی حریت کانفرنس کے مرکزی رہنما شبیر احمد شاہ نے کہا کہ مسلمانوں کو متحد کرنے میں علماء کرام کو بہت اہم رول ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مسلمان ہوش کے ناخن لیں اور دشمنوں کی سازشوں سے ہر وقت خبردار رہیں۔

جناب شبیر شاہ نے اسلامی تعاون کانفرنس (OIC) کو فعال اور منظم بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ OIC مسلمانوں کی ایک واحد نمائندہ جماعت بن سکتی ہے۔

اتحاد بین المسلمین کے لئے ضروری ہے کہ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشترکات کو فوقیت دی جائے


تحریک صوت الاولیاء جموں و کشمیر کے بانی مولانا عبدالرشید داؤدی 1979ء میں ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے ضلع کولگام میں پیدا ہوئے۔ اسلامی تعلیم کا آغاز انہوں نے ادارہ اسلامی تحقیقات اسلام آباد (کشمیر) سے کیا جہاں سے انہوں نے فاضلیت کی ڈگری حاصل کی اور پھر کشمیر یونیورسٹی سے بھی فاضلیت کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد مزید حصول علم کے لئے یمن تشریف لے گئے۔ 2005ء میں مولانا داؤدی نے تحریک صوت الاولیاء جموں و کشمیر کی بنیاد ڈالی اور آج اس ادارہ کا شمار کشمیر کے بڑے بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ اس ادارہ کا نصب العین دین اسلام کے متعلق اولیاء اللہ کے عطا کردہ عقائد و اعمال کی اشاعت, تبلیغ اور ترجمانی ہے۔ تحریک صوت الاولیاء نے عوام الناس کو دینی تعلیم سے روشناس کرنے کے لئے کشمیر میں مختلف جگہوں پر درسگاہوں اور دارالعلوم کا قیام عمل میں لایا ہے۔ سینکڑوں کی تعدا دمیں علماء ، مبلغین اور مدّرسین اس تحریک سے وابستہ ہیں اور خدمت دین و خدمت خلق انجام دے رہے ہیں۔ اس تحریک کے زیر نگران ایک ٹرسٹ بھی چل رہا ہے جو غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ ادارہ ایک سہ ماہی میگزین بھی شائع کرتا ہے۔ مرکزی صوت الاولیاء میں تقریباً تین سو طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ان کا سارا خرچہ ادارہ برداشت کرتا ہے۔ ضروریات دنیوی کو مد نظر رکھکر ان طلباء کو انگریزی اور کمپیوٹر کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔
برصغیر کیلئے تقریب خبررساں ادارے (تنا) کے بیورو چیف  اور عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے رکن جناب حجت الاسلام والمسلمین عبدالحسین کشمیری نے جمعرات 29 مارچ کو تقریب نیوز کے کو ایڈیٹر جناب سید علی صفوی اور تقریب نیوز کے آنلاین رپورٹر آغا سید احمد موسوی کے ہمراہ ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے ضلع اسلام آباد میں واقع تحریک صوت الاولیاء جموں و کشمیر  کے مرکز پر جاکر بانی مرکز مولانا عبدالرشید داؤودی صاحب سے ملاقات کی اور تقریب مذاہب اسلامی کے حوالے سے موالانا داؤدی صاحب سے تبادلہ خیال کیا جس کے بعد کو ایڈیٹر نے ان سے مکالمہ لیا جسکی تفصیل شرح ذیل ہے:

آپ کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے حامی رہے ہیں۔ اس حوالہ سے آپکی کوششوں کے بارے میں ہمیں بتائیے ؟


 اتحاد بین المسلمین پر ہر مسلمان کو پہل کرنا لازمی ہے۔ لیکن جو ذمہ دار لوگ ہیں اور جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے حوالہ سے اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کو چاہئے کہ اپنے افکار اور نظریات کو صحیح ڈھنگ سے عوام کے سامنے پیشکریں اور ان باتوں سے پرہیز کریں جو مسلکی منافرت کا سبب بن سکتی ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ عقائد، افکار اور نظریات کو صحیح ڈھنگ سے پیش کیا جائے کیونکہ زیادہ تر اختلافات نظریاتی اور افکاری ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مثبت پہلوؤں کو منفی پہلوؤں پر ترجیح دی جائے کیونکہ مثبت پہلو اختیار کر کے اتحاد بین المسلمین ممکن ہے۔ باقی جو علمی معاملات ہیں ان کو علمی حلقہ تک ہی محدود رکھا جانا چاہئے۔

اختلاف اگر علمی ہو تو باعث رحمت ہے کیونکہ اس سے دین کا فروغ ہوسکتا ہے نقصان نہیں۔ علماء کرام کو چاہئے کہ ایسی باتوں کو عوام تک نہ پہنچائے جو انتشار کا موجب بنیں۔


 چند سال قبل آپ پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ 
 میں درواقع اس سے بے خبر ہوں۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے فرمایا کہ زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص کو قتل کیا جائے گا لیکن نہ قاتل کو پتہ ہوگا کہ وہ کس بنا پر قتل کر رہا ہے اور نہ مقتول کو پتہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل ہوا۔ مجھےوہ حالات آج بخوبی نظر آتے ہے۔

میں دین کا ایک ادنیٰ خدمت گزار ہوں میری کسی سیاسی تنظیم سے کوئی وابستگی نہیں ہے۔ میں نے آج تک جو بھی کام کیا ہے فقط دین کی خاطر کیا ہے۔ میں نے خدا نخواستہ ایسا کوئی کام انجام نہیں دیا تھا جس کی وجہ سے میں اس حملہ کا مستحق بن جاتا۔

کشمیر میں اکثریت حنفی مسلک سے وابستہ لوگوں کی رہی ہے۔ چند لوگ کچھ وجوہات کی بنا پر ان کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں ان کے علماؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ایک خاص مکتب فکر کو ٹارگیٹ بنا کر شاید وہ کچھ اور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ ان کی نیت خراب ہے اسلئے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔


 کچھ دنوں پہلے سعودی عرب سے کچھ عجیب و غریب فتوے صادر ہوئے جو اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں یہ فتوے ان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ۔ آپ کا اس بارے میں کیا ردّ عمل ہے؟ 
 مسلمانوں کو ویسے بھی دہشت گرد نام دیکر بدنام کیا جاتا ہے اور ایسے جاہلانہ اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات اٹھا کر مسلمانوں کو مزید تشدد کا شکار بنانا مناسب نہیں ہے۔ علماء کو قرآن شریف کو سامنے رکھکر فتوے صادر کرنے چاہئے۔ کسی کو خوش کرنے کے لئے ایسے فتوے صادر کرنا مناسب نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے کہا ہے کہ زمانہ آخر میں مبلغین اور مفتیانِ عظام لوگوں کی مرضی کے مطابق فتوے صادر کریںگے۔

دین حکمت سے بھرا ہوا ہے ۔ حکمت سکھا کر اور حکمت عملا کر ہی اسلام پھیلا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ، اہلبیت اطہار (علیہم السلام) اور صحابہ کرامؓ نے حکمت کو ترجیح دیکر دین کو پھیلایا ہے۔ ہندوستان میں جو بزرگانِ دین آئے انہوں نے بھی حکمت کو سامنے رکھکر دین کو پھیلایا۔

جہاں مغربیت، نصرانیت اور یہودیت بہت زوروں پر ہے اس دور میں ایسے فتوے صادر کرنا جن کی وجہ سے مسلمان ظلم و تشدد کا شکار ہوجائیں وہ قطعی مناسب نہیں ہے۔ مثبت حکمت عملی اپنانا بہت ضروری ہے تاکہ دین کی بھی ترویج ہوجائے اور مسلمان بھیمحفوظ رہیں۔


 کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے بہت سی کوششیں ہوئی بھی ہیں اور ہو بھی رہی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ ظاہر نہیں ہے۔ کوئی ٹھوس سعی و کوشش مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی نہیں ہورہی ہے ؟ 
 میں نے قبل ازیں آپ سے عرض کیا کہ بنیادی اختلاف افکار اور نظریات میں ہے۔ جس نے اپنا کوئی آئیڈیل بنایا وہ اس پر ڈٹا ہوا ہے۔ اپنی بات چھوڑنے کے لئے کوئی تیار بھی نہیں ہے۔ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشترکات کو فوقیت دی جائے تو اتحاد ممکن ہے۔

جہاں تک اہلسنت والجماعت کی بات ہے تو ان کو منظّم کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ ہم اجتماعی طور دین کی خدمت کر سکیں۔


مدرسوں کو حکومت ہند سے مالی امداد ملنے کی جو خبر میڈیا میں آئی تھی اس بارے میں ہمیں کچھ بتائیے ؟

 ہم اپنی طرف سے کہتے ہیں کہ تحریک صوت الاولیاء نے آج تک حکومت سے نہ مالی مدد لی ہے اور نہ آئندہ لینے کا ارادہ ہے۔ ہم نے بارہا حکومت سے گذارش کی کہ جن مدارس کو مالی امداد ملتی ہے ان کی فہرست اخبارات میں شائع کریں تاکہ ان باتوں سے جو عوام میں انتشار پھیلایا جاتا ہے وہ دور ہوجاتا۔

حکومت کی بھی کوئی تعداد مقرر نہیں ۔ پہلے انہوں نے کہا کہ 372 مدرسوں کو وہ مالی امداد دیتے ہیں اور آج وہ کہتے ہیں کہ صرف 72 مدرسوں کو امداد ملتی ہے۔

ان باتوں سے ہمارے لئے مشکلات پیدا ہوتے ہیں عوام کو لگتا ہے کہ ہم کو حکومت کی طرف سے امداد ملتی ہے اس لئے ہمیں انکے چندے کی ضرورت نہیں ہے۔

ادارہ صوت الاولیاء کو حکومت کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ادارہ عوام کا ہے وہ خود چندہ دیکر اس ادارہ کو چلاتے رہیں گے۔

Monday, April 16, 2012

مولانا ڈاکٹر کلب صادق کا خاص مکالمہ: علماء اہنکار چھوڑ دیں اتحاد خودبخود ہوجائے گا


مولانا ڈاکٹر کلب صادق ہندوستان کے چوٹی کے عالم دین اور ہردلعزیز مفکر ہیں ۔ تقریب نیوز کشمیر بیورو کے ساتھ خصوصی مکالمے کے دوران انہوں اسلامی اتحاد و یکجہتی کے حوالے سے کئی تلخ حقائق سے پردا اٹھایا جسے قارئین کے نظر کیا جا رہا ہے:

آپ ہندوستان میں اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے علمبردار رہے ہیں اور اتحاد کی علم بلند رکھنے میں آپ کا کلیدی رول رہا ہے۔ آپ کی نظر میں اتحاد کے حوالے سے علماء کرام کو کس طرح کا رول ادا کرنا چاہئے ؟
اتحاد کی راہ میں علماء کرام ہی تو سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ علماء اگر آپس میں مل جائیں تو پوری قوم آپس میں مل جائے گی۔ مسلمان علماء تو آپس میں اختلاف رکھتے ہی ہیں حد تو یہ ہے کہ ایک ایک فرقہ کے علماء میں زبردست اختلاف ہے۔

مولا علی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ دنیا سے جنت تک کا فاصلہ کتنا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا دو قدم کا۔ پہلا قدم اپنے اہنکار پر رکھو اور دوسرا قدم جنت میں ہوگا۔ افسوس کہ جتنے بھی ہمارے علماء ہیں سب کے سب اہنکار کا شکارہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد نہیں ہوسکا ہے۔ جب انسان اہنکار کو بھول کر حقیقی مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو اتحاد خود بخود ہوجاتا ہے۔

ہندوستان کی اگر ہم بات کریں تو الحمد اللہ یہاں شیعہ سنی حد تک فضا بہت سازگار ہے۔ دہلی میں حال ہی میں ایک جلسہ ہوا تھا جہاں ہندوستان کے چوٹی کے علماء موجود تھے اور وہاں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ علماء کرام کو اتحاد پر کام کرنا چاہئے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جلسوں اور کانفرنسوں میں جو باتیں طے ہوتی ہیں ان کا بعد میں زمینی سطح پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اتحاد کے حوالے سے کیا رول رہا ہے؟
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ صرف ایک Single Pointپر بنا ہے کہ 1937 میں جو ہندوستان میں شریعت نفاذ ایکٹ بنا تھا اس کو نافذ کیا جائے ۔ اس کا جو دائرہ اختیار ہے بس اتنا ہے۔ لیکن لوگ دیگر مسائل بھی لے آتے ہیں جس کی ذمہ داری بورڈ اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ امت کی بہتری کے تحت بورڈ کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ علماء میں اتحاد ہونا چاہئے اور اس کا اثر پڑتا بھی ہے جب لوگ دیکھتے ہیں کہ شیعہ ، سنی، دیوبندی، بریلوی، سلفی علماء ایک ہی اسٹیج پر بیٹھے ہیں۔

بلتستان پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کیا رد عمل ہے؟
گلگت کا مسئلہ بہت افسوسناک مسئلہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو شیعوں کا خون ہر جگہ بہایا جارہا ہے۔ سعودی عرب میں شیعہ مصیبت میں ہیں ۔ اردن میں شیعوں پر ظلم ہورہا ہے۔ افغانستان میں شیعہ مارے گئے۔ عراق میں شیعوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ غرض ہر جگہ یہی حال ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کو بڑی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اگرچہ اس مسئلہ کو اپنے جھنڈے تلے نہیں لایا ہے تاہم بورڈ ان حالات سے خوش نہیں ہے۔

شیعہ علماء اس سلسلہ میں بہت فعال ہیں اور شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے بیانات بھی اس سلسلےمیں مسلسل آرہے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ خالی بیانات کے ذریعہ حل نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ کی جڑیں بہت گہری ہیں اور مثبت حکمت عملی اختیار کر کے ہی اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔

غلطیاں ہماری بھی ہیں لیکن اتنی بڑی نہیں ہیں کہ اس کی سزا یہ ہو کہ ہمارے بچوں اور جوانوں کو قتل کیا جائے ۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ طالبان اور القاعدہ بھیڑئے ہیں ۔ وہ اگر شیعوں کو ختم کریں گے تو سنی بھی بعد میں نہیں بچیں گے۔ ان کو تو مارنے ، لوٹنے اور قتل کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ قتل و غارت گری ان کی فطرت میں ہے۔ یہ پورے پاکستان کے لئے خطرہ ہیں۔

شیعوں کے خلاف کافی پروپیگنڈا ہورہا ہے اور شیعہ مخالف گروپوں خصوصاً سعودی وہابی علماء نے تو شیعوں کو اسلام کے دائرہ سے ہی خارج کیا ہے۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں کا اتحاد بین المسلمین کی کوششوں پر کتنا اثر پڑتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے بھی سیاست ہے۔ سلفی عالم ہو، وہابی عالم ہو یا کوئی بھی عالم ہو اگر وہ کسی قوم کا ایجنٹ نہیں ہے تو وہ ہمارے لئے مسئلہ نہیں ہے ۔ جو وہابی اور دیوبندی علماء سعودی عرب کے ایجنٹ ہیں وہ چاہئے سعودی عرب میں ہوں، ہندوستان میں ہوں یا پاکستان میں ہوں وہ ضرور پریشانی کا باعث ہیں۔

سعودی حکومت امریکہ کی کٹھہ پتلی ہے اور وہ امریکہ کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف رہے اس لئے سعودی عرب سے پیسہ لیکر یہ لوگ فتنہ و فساد برپا کرتے ہیں۔

ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ آپ نے جدید تعلیم ( Modern education) کے فروغ کے لئے کافی سراہنی کام انجام دیا بھی ہے اور دے بھی رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں علماء کرام تعلیم کے میدان میں کس قسم کا رول ادا کرسکتے ہیں؟
میرے سامنے رول ماڈل ایرانی علماء ہیں ہندوستانی یا پاکستانی علماء نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ علماء کا کام صرف نماز پڑھنا، مجلسیں پڑھنا یا فقہی مسائل بیان کرنا نہیں ہے۔ علماء معاشرہمیں اصلاحکے ذمہ دار ہیں۔ وہ معاشرہ کے مسائل کو حل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے لئے الحمد اللہ ایرانی علماء نے اتمام حجت کردیا ہے۔ ایران جہاں اس وقت مذہبی اور شرعی حکومت ہے کس قدر سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے گذشتہ پندرہ سالوں میں پوری دنیا بشمول امریکہ و یوروپ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں دس گناہ ترقی کی ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تربیت اسی لائن پر ہو۔ بغیر جدید تعلیم کے آپ آج دنیا میں کچھ نہیں کرسکتے۔

عالم اسلام کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
عالم اسلام کے لئے میرا صرف اور صرف یہی پیغام ہے کہ صحیح معنوں میں مسلمان ہو جائیں جیسے ایران مسلمان ہوگیا۔ جو مسلمان ہوجائے گا وہ پھر شیعہ سنی تفریق نہیں کرے گا۔

ابھی شعبان کے مہینہ میں ایک وفد ایران گیا تھا جس میں تیرہ سنی عالم اور پانچ شیعہ علماء تھے۔ ہم سب مل کر ایران کے تربت جام شہر جہاں سنی اکثریت میں ہے وہاں بھی گئے۔ وہاں ہم نے سنیوں کے حالات دیکھے۔ ان کو جو آزادی ہے وہ ہم نے خود دیکھی۔ ان کی جو بڑی بڑی مسجدیں آباد ہیں وہ ہم نے خود دیکھیں۔ ان کے مدرسہ آباد ہیں وہ ہم نے دیکھے۔ غرض سمجھداروں کے لئے یہی کافی ہے کہ سنی اقلیت کو ایران میں کتنی آزادی حاصل ہے اور اس کے مقابلہ میں شیعہ اقلیت سعودی عرب میں کن مشکلات کے شکار ہیں۔ یہ دیکھنے والے خود ہی دیکھتے ہیں۔

Wednesday, April 11, 2012

Has India failed to protect its minorities?

Syed Ali Safvi

Better late than never! The supreme court of India on Monday convicted 23 people for their role in infamous 2002 Gujarat riots. Although belated, the decision must be welcomed.

Over 2000 people, mostly Muslims, were killed in one of the brutal massacres of Muslims in India that will go down in the history as one of the worst examples of pogrom.

The father of the Indian nation, Mohandas Karamchand Gandhi, once said that India would be known by the way it treats its minorities. If Gandhi were alive today, he certainly would have hung his head in shame after seeing his dream of Hindu-Muslim-Sikh unity being tethered by some Hindu fanatics who are hell-bent on spreading communal animosity.

India boasts about its tenets of secularism and democratic values, but it is just empty rhetoric that is not reflected in the realities on the ground.




It has been proven time and again that the Indian state has failed to protect its minorities. The West Bengal riots, the Delhi riots, the Jammu massacre, the 1984 Sikh riots, the Babri Masjid demolition, the Baghalpur riots, the Gujarat pogrom, and hundreds and thousands of such communal riots in a span of 65 years have exposed the underbelly of Indian secularism.

The world has seen how secularism and the “age-old history” of religious tolerance were trampled upon by the successors of Vinayak Damodar Savarkar’s ‘ideology of hate’.

The seeds of communal hatred were sown by the members of the Hindu Mahasabha long ago, even before the very idea of Pakistan came into being.

Contrary to the common belief that Jinnah originated the two-nation theory, actually it was Savarkar who propounded the theory years before the Muslim League embraced the idea. Savarkar had commanded all the Muslims to leave ‘Bharat’ to pave the way for the establishment of “Hindu Rashtra”. When Jinnah introduced his two-nation theory, Savarkar announced, “I have no quarrel with Mr. Jinnah’s two-nation theory… It is a historical fact that Hindus and Muslims are two nations.”

“His (Savarkar’s) doctrine was Hindutva, the doctrine of Hindu racial supremacy, and his dream was of rebuilding a great Hindu empire from the sources of the Indus to those of the Brahmaputra. He hated Muslims. There was no place for them in the Hindu society he envisioned.” (Freedom at Midnight, by Dominique Lapierre and Larry Collins).

So the hate campaign against Muslims was well in place even before the partition of erstwhile British India. This and many other significant factors forced Jinnah to demand a separate nation for Muslims as he believed that Muslims would not be safe in India -- a prophetic declaration indeed! There is no denying the fact that Jinnah was secular to the marrow and would never have wished to cut ties with India, but circumstances compelled him to do so. However, he had not harbored grudges against India or its leaders. He had kept his house on Malabar Hill, thinking he could weekend there, while running his country from Karachi on weekdays, but destiny had something else in store for the estranged neighbors of the Asia Partition.

When Nathuram Godse pumped three bullets into Gandhi, a section of the Hindu community compared him with Judas. The writing was on the wall. The divide was evident. In some areas people mourned the death of Gandhi, and in other areas they distributed sweets, held celebrations, and demanded the release of Godse. Gandhi’s crime was that he had demanded security for Muslims.

The seeds of partition were actually sown by the stalwarts of Hindu Mahasabha, primarily the quartet of Savarkar, Gawarikar, Apte, and Nathuram Godse. Independent India’s history is testimony to the fact that in a conflict between the forces of secular nationalism and religious communalism, the latter has always ruled the roost. Secular forces have more often than not ended up playing into the hands of communal forces. Such has been the history of independent India.

(The article first appeared in www.taghribnews.com/en/)

Friday, April 6, 2012

Can the world afford war on Iran?


Syed Ali Safvi

Safeguarding and securing Israel has always been one of the prime concerns of the United States of America (USA). The Uncle Sam has been using all its influence and might to to strangulate all those voices raised against its strategic ally Israel.


America and its allies are fighting what they have described (a misnomer) as "Islamic terrorism". However, the fact of the matter is that the US - self proclaimed champion of electoral democracy – has for long harboured an ambition to uproot Islam and Muslims from the face of this planet.

It is an established fact that the US invasions of Iraq was actually initiated by Israel for its “strategic benefit”, for securing its future and most importantly “to divert Iraqi oil to the Haifa refinery via the Mosul to Haifa pipeline”. The pipeline is used to send oil to Israel.

The US government’s horrible misadventure in Iraq saw thousands of innocent civilians being killed with cluster bombs and other horrific weaponry.

America’s claim that Iraq possessed Weapons of Mass Destruction (WMDs) dangerous for the world peace (read Israel) proved a cruel hoax. Yet the whole world remained silent.

American-Israeli invasion of Iraq will long be remembered for the infamous Abu Gharib prison, which has became synonymous with the brutality unleashed by the American and its allied forces.

Now, Israel’s next target is Iran, the country that has threatened to “wipe Israel off the map” – an audacious statement by Iranian president Mehmoud Ahmedinejad, which excerbated the already strained relationship between the two countries.

Pertinently, Iran’s government does not recognise Israel as a country and it has severed all diplomatic and commercial ties with Israel since the 1979 Islamic revolution. The Islamic republic is also known for its sharp anti-Zionism stance.

There is a strong speculation that Israel might attack its traditional bête noire Iran, already reeling under the impact of economic sanctions.

It is not only the matter of Iran's 'peaceful' nuclear enrichment that is troubling the self-made global watchdogs – US and Israel, but the threat it entails for Israel.

The Israel is trying its best to mobilize Zionist lobbies across the world to launch a military strike on Iranian uranium enrichment facilities.

However, several countries including Russia, China, India, Australia, and even America are opposed to a strike on Iran.

But despite the worldwide opposition, Israel seems hell bent on attacking Iran as has become evident from the US intelligence report.

US Secretary for Defence, Leon Panetta, revealed last month that the intelligence reports have pointed to an Israeli attack on Iran in late spring or early summer of 2012.

It remains to be seen whether Israel’s strongest ally - US - will continue to stay aloof from Isarel’s possible military strike on Iran, or joins the Israel’s misadventure.

Ironically, the U.S., the country seeking to prevent Iran from achieving nuclear weapons capability, had no qualms when Israel, assisted by France, was making nuclear bombs. Israel is known to possess some 200 to 300 nuclear weapons in its arsenal.

America has been claiming ad-nauseum to make Middle East a 'nuclear-free zone'. This despite the fact that there is already a nuclear power existing in the heart of Middle East.

America's unflinching support to Israel's blatant policies is slowly and steadily transforming the political fabric of the Middle East, which could prove very costly for the US and Israel in the long run. The rise of Islam as a political force has sent a shaking and shocking message to the White House.

The Islamic political parties like Muslim Brotherhood in Egypt, Islamic Salvation Front in Algeria, Hezbollah in Lebanon have strongly established themselves in their respective nations.

With war couds hovering over Iran, the global crude oil prices have already shot up. Iran is not Iraq. Attack on Iran could prove distrous for the world peace and can escalate regional conflicts.

It is high time that world leaders get together and prevent the possible strike on Iran and resolve the issues amicably through mutual negotiation. Iran has also expressed its willingness to discuss its nuclear programme with the world powers.

The world leaders can not brush aside the truth in the statement of Iranian president, who once remarked while addresseing the world leaders, “You need us more than we need you.”

(The article first appeared in www.taghribnews.com/en/)

Kashmir: It's time to say goodbye to AFSPA

SYED ALI SAFVI

Amid growing clamour for withdrawal of the highly controversial Armed Forces Special Powers Act (AFSPA) from Indian administered Kashmir and Northeast region, Indian government has said that it was willing to make partial amendments to the AFSPA.

The proposed amendments, pending before Cabinet Committee on Security (CCS) - entrusted with analysing security related aspects of India – relate to “taking arrests warrants in advance, taking away the power of the armedforces to open fire causing death and setting up of a grievance redressal cell.”

Indian government has come under scathing attack from various human rights groups for its failure in upholding human rights in this conflict ridden Himalayan region that borders India, Pakistan and China.

The global human rights watchdogs and human rights defenders have long been demanding the repeal of draconian AFSPA from Kashmir. Pertinently, more than 100 civilians were killed by government forces in Kashmir in protests against AFSPA in 2010.

Chief Minister of Indian Administered Kashmir, Mr Omar Abdullah, has also joined the chorus for the repeal of the law that gives security forces the license to kill innocent civilians on mere suspicion.

The Indian Army on the other hand has been rejecting the demand for withdrawal of AFSPA, saying that it needs the legal cover to deal with militancy in Kashmir.

The human rights defendersin Kashmir say that AFSPA is the main cause behind all the crimes against humanity in Kashmir.
“AFSPA has given legal impunity to the seven lakh security forces operating in Kashmir,” says Advocate Parvez Imroz, a human rights defender and Co-convener of the International People's Tribunal on Human Rights and Justice (IPTHRJ).

In 2011, Jammu and Kashmir State Human Rights Commission (JKSHRC) had confirmed the presence of dozens of unmarked mass graves across 55 villages of north Kashmir, carrying over 2000 unidentified bodies.

The authorities claimed that the graves carry the bodies of foreign militants. However, the IPTHRJ, in its report, said the graveyards investigated have mostly the bodies of those murdered in fake encounters from 1990 to 2009.

“More than 8000 people have disappeared in custody after they were arrested by the law enforcing agencies. There is a relationship between mass graves and the disappeared people here,” Imroz added.

With over half a million Indian troops, Kashmir is the most militarized zone in the world.

Since their independence, India and Pakistan have fought three wars over Kashmir, which continues to remain the bone of contention for both the countries. Innumerable direct bilateral negotiations between India and Pakistan have failed to yield any result.

The Indian authorities have been maintaining that situation in Indian administered Kashmir has significantly improved, but when it comes to repealing of AFSPA and demilitarization, it says “the time is not ripe”.

There are umpteen evidences to prove that army has been misusing the AFSPA in Kashmir. The abundant powers given to them have escalated human rights violations in this picturesque Himalayan region.

Pertinently, the Indian authorities have rejected to prosecute those Indiantroops who were found to be involved in murder, culpable homicide, and rape in Kashmir.

Custodial killings, illegal use of force, fake encounters, rapes, illegal detentions, and disappearances have become the order of the day. Killing of thousands of young men is upsetting the sex ratio, economy is in depression, education has been affected, child labour has become rampant, and many other social evils have cropped up.

The paradise of Kashmir has not just been lost but ruined and peace in the Valley has been broken into pieces.

For a Kashmiri, living life itself has become like walking on a minefield. Anytime anything can happen. Each day is a new day of death and uncertainty. Few seconds can change the entire course of life and the world will not be the same place again.

Kashmir was the only place where Mohandas Karamchand Gandhi, father of Indian freedom struggle, had witnessed 'sunshine' and 'sobriety' during the days of partition when rest of the sub-continent was painted red with blood of thousands of innocents. After more than 60 years, Kashmir is the only spot in the sub-continent bleeding amid impunity.

(The article firsat appeared in www.taghribnews.com/en/)