Monday, April 16, 2012

مولانا ڈاکٹر کلب صادق کا خاص مکالمہ: علماء اہنکار چھوڑ دیں اتحاد خودبخود ہوجائے گا


مولانا ڈاکٹر کلب صادق ہندوستان کے چوٹی کے عالم دین اور ہردلعزیز مفکر ہیں ۔ تقریب نیوز کشمیر بیورو کے ساتھ خصوصی مکالمے کے دوران انہوں اسلامی اتحاد و یکجہتی کے حوالے سے کئی تلخ حقائق سے پردا اٹھایا جسے قارئین کے نظر کیا جا رہا ہے:

آپ ہندوستان میں اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے علمبردار رہے ہیں اور اتحاد کی علم بلند رکھنے میں آپ کا کلیدی رول رہا ہے۔ آپ کی نظر میں اتحاد کے حوالے سے علماء کرام کو کس طرح کا رول ادا کرنا چاہئے ؟
اتحاد کی راہ میں علماء کرام ہی تو سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ علماء اگر آپس میں مل جائیں تو پوری قوم آپس میں مل جائے گی۔ مسلمان علماء تو آپس میں اختلاف رکھتے ہی ہیں حد تو یہ ہے کہ ایک ایک فرقہ کے علماء میں زبردست اختلاف ہے۔

مولا علی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ دنیا سے جنت تک کا فاصلہ کتنا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا دو قدم کا۔ پہلا قدم اپنے اہنکار پر رکھو اور دوسرا قدم جنت میں ہوگا۔ افسوس کہ جتنے بھی ہمارے علماء ہیں سب کے سب اہنکار کا شکارہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد نہیں ہوسکا ہے۔ جب انسان اہنکار کو بھول کر حقیقی مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو اتحاد خود بخود ہوجاتا ہے۔

ہندوستان کی اگر ہم بات کریں تو الحمد اللہ یہاں شیعہ سنی حد تک فضا بہت سازگار ہے۔ دہلی میں حال ہی میں ایک جلسہ ہوا تھا جہاں ہندوستان کے چوٹی کے علماء موجود تھے اور وہاں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ علماء کرام کو اتحاد پر کام کرنا چاہئے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جلسوں اور کانفرنسوں میں جو باتیں طے ہوتی ہیں ان کا بعد میں زمینی سطح پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اتحاد کے حوالے سے کیا رول رہا ہے؟
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ صرف ایک Single Pointپر بنا ہے کہ 1937 میں جو ہندوستان میں شریعت نفاذ ایکٹ بنا تھا اس کو نافذ کیا جائے ۔ اس کا جو دائرہ اختیار ہے بس اتنا ہے۔ لیکن لوگ دیگر مسائل بھی لے آتے ہیں جس کی ذمہ داری بورڈ اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ امت کی بہتری کے تحت بورڈ کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ علماء میں اتحاد ہونا چاہئے اور اس کا اثر پڑتا بھی ہے جب لوگ دیکھتے ہیں کہ شیعہ ، سنی، دیوبندی، بریلوی، سلفی علماء ایک ہی اسٹیج پر بیٹھے ہیں۔

بلتستان پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کیا رد عمل ہے؟
گلگت کا مسئلہ بہت افسوسناک مسئلہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو شیعوں کا خون ہر جگہ بہایا جارہا ہے۔ سعودی عرب میں شیعہ مصیبت میں ہیں ۔ اردن میں شیعوں پر ظلم ہورہا ہے۔ افغانستان میں شیعہ مارے گئے۔ عراق میں شیعوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ غرض ہر جگہ یہی حال ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کو بڑی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اگرچہ اس مسئلہ کو اپنے جھنڈے تلے نہیں لایا ہے تاہم بورڈ ان حالات سے خوش نہیں ہے۔

شیعہ علماء اس سلسلہ میں بہت فعال ہیں اور شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے بیانات بھی اس سلسلےمیں مسلسل آرہے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ خالی بیانات کے ذریعہ حل نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ کی جڑیں بہت گہری ہیں اور مثبت حکمت عملی اختیار کر کے ہی اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔

غلطیاں ہماری بھی ہیں لیکن اتنی بڑی نہیں ہیں کہ اس کی سزا یہ ہو کہ ہمارے بچوں اور جوانوں کو قتل کیا جائے ۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ طالبان اور القاعدہ بھیڑئے ہیں ۔ وہ اگر شیعوں کو ختم کریں گے تو سنی بھی بعد میں نہیں بچیں گے۔ ان کو تو مارنے ، لوٹنے اور قتل کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ قتل و غارت گری ان کی فطرت میں ہے۔ یہ پورے پاکستان کے لئے خطرہ ہیں۔

شیعوں کے خلاف کافی پروپیگنڈا ہورہا ہے اور شیعہ مخالف گروپوں خصوصاً سعودی وہابی علماء نے تو شیعوں کو اسلام کے دائرہ سے ہی خارج کیا ہے۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں کا اتحاد بین المسلمین کی کوششوں پر کتنا اثر پڑتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے بھی سیاست ہے۔ سلفی عالم ہو، وہابی عالم ہو یا کوئی بھی عالم ہو اگر وہ کسی قوم کا ایجنٹ نہیں ہے تو وہ ہمارے لئے مسئلہ نہیں ہے ۔ جو وہابی اور دیوبندی علماء سعودی عرب کے ایجنٹ ہیں وہ چاہئے سعودی عرب میں ہوں، ہندوستان میں ہوں یا پاکستان میں ہوں وہ ضرور پریشانی کا باعث ہیں۔

سعودی حکومت امریکہ کی کٹھہ پتلی ہے اور وہ امریکہ کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف رہے اس لئے سعودی عرب سے پیسہ لیکر یہ لوگ فتنہ و فساد برپا کرتے ہیں۔

ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ آپ نے جدید تعلیم ( Modern education) کے فروغ کے لئے کافی سراہنی کام انجام دیا بھی ہے اور دے بھی رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں علماء کرام تعلیم کے میدان میں کس قسم کا رول ادا کرسکتے ہیں؟
میرے سامنے رول ماڈل ایرانی علماء ہیں ہندوستانی یا پاکستانی علماء نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ علماء کا کام صرف نماز پڑھنا، مجلسیں پڑھنا یا فقہی مسائل بیان کرنا نہیں ہے۔ علماء معاشرہمیں اصلاحکے ذمہ دار ہیں۔ وہ معاشرہ کے مسائل کو حل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے لئے الحمد اللہ ایرانی علماء نے اتمام حجت کردیا ہے۔ ایران جہاں اس وقت مذہبی اور شرعی حکومت ہے کس قدر سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے گذشتہ پندرہ سالوں میں پوری دنیا بشمول امریکہ و یوروپ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں دس گناہ ترقی کی ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تربیت اسی لائن پر ہو۔ بغیر جدید تعلیم کے آپ آج دنیا میں کچھ نہیں کرسکتے۔

عالم اسلام کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
عالم اسلام کے لئے میرا صرف اور صرف یہی پیغام ہے کہ صحیح معنوں میں مسلمان ہو جائیں جیسے ایران مسلمان ہوگیا۔ جو مسلمان ہوجائے گا وہ پھر شیعہ سنی تفریق نہیں کرے گا۔

ابھی شعبان کے مہینہ میں ایک وفد ایران گیا تھا جس میں تیرہ سنی عالم اور پانچ شیعہ علماء تھے۔ ہم سب مل کر ایران کے تربت جام شہر جہاں سنی اکثریت میں ہے وہاں بھی گئے۔ وہاں ہم نے سنیوں کے حالات دیکھے۔ ان کو جو آزادی ہے وہ ہم نے خود دیکھی۔ ان کی جو بڑی بڑی مسجدیں آباد ہیں وہ ہم نے خود دیکھیں۔ ان کے مدرسہ آباد ہیں وہ ہم نے دیکھے۔ غرض سمجھداروں کے لئے یہی کافی ہے کہ سنی اقلیت کو ایران میں کتنی آزادی حاصل ہے اور اس کے مقابلہ میں شیعہ اقلیت سعودی عرب میں کن مشکلات کے شکار ہیں۔ یہ دیکھنے والے خود ہی دیکھتے ہیں۔

No comments: